مسجد ضرار
مسجد ضرار
منافقوں
نے اسلام کی بیخ کنی اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے مسجد قباء کے
مقابلہ میں ایک مسجد تعمیر کی تھی جو در حقیقت منافقین کی سازشوں اور ان کی
دسیسہ کاریوں کا ایک زبردست اڈہ تھا۔ ابو عامر راہب جو انصار میں سے
عیسائی ہو گیا تھا جس کا نام حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ابو عامر فاسق
رکھا تھا اس نے منافقین سے کہا کہ تم لوگ خفیہ طریقے پر جنگ کی تیاریاں
کرتے رہو۔ میں قیصر روم کے پاس جاکر وہاں سے فوجیں لاتا ہوں تا کہ اس ملک
سے اسلام کا نام و نشان مٹا دوں۔ چنانچہ اسی مسجد میں بیٹھ کر اسلام کے
خلاف منافقین کمیٹیاں کرتے تھے اور اسلام و بانئ اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کا معاذاللہ خاتمہ کر دینے کی تدبیریں سوچا کرتے تھے۔
ابو عامر کون تھا
مدینہ منورہ کے قبیلے خزرج میں ابو عامر ایک راہب تھااسے راہب کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ وہ عبادت گزار تھا اور علم کی تلاش میں لگا رہتا تھا پھر وہ حضور نبی مکرم ﷺ کی دعوت کا انکار کرتے ہوئے قنسرین میں حالت کفر میں مرگیا۔ اس نے حضور نبی مکرم ﷺ کو کہا تھا : میں جو قوم بھی تمہارے ساتھ قتال کرتے ہوئے پاؤں گا تو میں ان کے ساتھ مل کر تمہارے ساتھ قتال کروں گا، پس وہ غزوہ حنین تک لگا تار آپ کے خلاف جنگ لڑتا رہا، اور جب بنو ہوازن شکست سے دو چار ہوئے تو وہ روم کی طرف نکل گیا اور عیسائی ہوگیا اوریہ وہی شخص ہے جن کے لڑکے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں جن کی لاش کو فرشتوں نے غسل دیا اس لئے غسیل الملائکہ کے نام سے معروف ہوئے، مگر باپ اپنی گمراہی اور نصرانیت پر قائم رہا۔ ابو عامراحد کی لڑائی میں اہل مکہ کو بہکا کر مسلمانوں پر چڑھا کر لایا اور چند گڑھے اس نے لڑائی کی صفوں کے بیچ میں کھود دئیے تھے جن میں سے ایک گڑھے میں گر کر نبی مکرم ﷺ کے چوٹ لگ گئی تھی ۔
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جنگ تبوک کے لئے روانہ ہونے لگے تو مکار منافقوں کا ایک گروہ آیا اور محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے بارگاہ اقدس میں یہ درخواست پیش کی کہ یا رسول اﷲ(صلی اﷲ علیہ والہ وسلم)ہم نے بیماروں اور معذوروں کے لئے ایک مسجد بنائی ہے ۔آپ چل کر ایک مرتبہ اس مسجد میں نماز پڑھا دیں تا کہ ہماری یہ مسجد خدا کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس وقت تو میں جہاد کے لئے گھر سے نکل چکا ہوں لہٰذا اس وقت تو مجھے اتنا موقع نہیں ہے۔ منافقین نے کافی اصرار کیا مگر آ پ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی اس مسجد میں قدم نہیں رکھا۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ تبوک سے واپس تشریف لائے تو منافقین کی چالبازیوں اور ان کی مکاریوں، دغابازیوں کے بارے میں ''سورۂ توبہ'' کی بہت سی آیات نازل ہو گئیں اور منافقین کے نفاق اور ان کی اسلام دشمنی کے تمام رموز و اسرار بے نقاب ہو کر نظروں کے سامنے آ گئے۔ اور ان کی اس مسجد کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ
"اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد ضرر (یعنی نقصان) پہنچانے اور کفر کرنے اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے بنائی اور اس مقصد سے کہ جو لوگ پہلے ہی سے خدا اور اس کے رسول سے جنگ کر رہے ہیں ان کیلئے ایک کمین گاہ ہاتھ آ جائے اور وہ ضرورقسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی ہی کا ارادہ کیا ہے ۔اور خدا گواہی دیتا ہے کہ بےشک یہ لوگ جھوٹے ہیں آپ کبھی بھی اس مسجد میں نہ کھڑے ہوں وہ مسجد (مسجد قباء) جسکی بنیاد پہلے ہی دن سے پرہیز گاری پر رکھی ہوئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اسمیں ایسے لوگ ہیں جو پاکی کو پسند کرتے ہیں اور خدا پاکی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔(توبہ )
اس آیت کے نازل ہو جانے کے بعد حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن د خشم و حضرت معن بن عدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو حکم دیا کہ اس مسجد کو منہدم کرکے اس میں آگ لگا دیں۔(2) (زرقانی ج۳ ص۸۰)
انہدام کے بعد
مسجد ضرار کی جگہ خالی پڑی تھی، رسول اللہ نے عاصم ابن عدی کو اس کی اجازت دی کہ وہ اس جگہ میں اپنا گھر بنالیں، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺجس جگہ کے متعلق قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوچکی ہیں میں تو اس منحوس جگہ میں گھر بنانا پسند نہیں کرتا، البتہ ثابت بن اقرم ضرورت مند ہیں ان کے پاس کوئی گھر نہیں ان کو اجازت دیدیجئے کہ وہ یہاں مکان بنا لیں، ان کے مشورہ کے مطابق آپ نے یہ جگہ ثابت بن اقرم کو دے دی مگر ہوا یہ کہ جب سے ثابت اس مکان میں مقیم ہوئے ان کے کوئی بچہ نہیں ہوا یا زندہ نہیں رہا۔ اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ انسان تو کیا اس جگہ میں کوئی مرغی بھی انڈے بچے دینے کے قابل نہ رہی کوئی کبوتر اور جانور بھی اس میں پھلا پھولا نہیں، چنانچہ اس کے بعد سے یہ جگہ آج تک مسجد قبا کے کچھ فاصلہ پر ویران پڑی ہے۔
اب سننے میں آیا ہے کہ حکومتِ سعودیہ نے یہاں کوئی عمارت تعمیر کرکے اس کو مدرسے یا لائبریری میں تبدیل کردیا ہے۔ واللہ اعلم
ابو عامر کون تھا
مدینہ منورہ کے قبیلے خزرج میں ابو عامر ایک راہب تھااسے راہب کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ وہ عبادت گزار تھا اور علم کی تلاش میں لگا رہتا تھا پھر وہ حضور نبی مکرم ﷺ کی دعوت کا انکار کرتے ہوئے قنسرین میں حالت کفر میں مرگیا۔ اس نے حضور نبی مکرم ﷺ کو کہا تھا : میں جو قوم بھی تمہارے ساتھ قتال کرتے ہوئے پاؤں گا تو میں ان کے ساتھ مل کر تمہارے ساتھ قتال کروں گا، پس وہ غزوہ حنین تک لگا تار آپ کے خلاف جنگ لڑتا رہا، اور جب بنو ہوازن شکست سے دو چار ہوئے تو وہ روم کی طرف نکل گیا اور عیسائی ہوگیا اوریہ وہی شخص ہے جن کے لڑکے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں جن کی لاش کو فرشتوں نے غسل دیا اس لئے غسیل الملائکہ کے نام سے معروف ہوئے، مگر باپ اپنی گمراہی اور نصرانیت پر قائم رہا۔ ابو عامراحد کی لڑائی میں اہل مکہ کو بہکا کر مسلمانوں پر چڑھا کر لایا اور چند گڑھے اس نے لڑائی کی صفوں کے بیچ میں کھود دئیے تھے جن میں سے ایک گڑھے میں گر کر نبی مکرم ﷺ کے چوٹ لگ گئی تھی ۔
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جنگ تبوک کے لئے روانہ ہونے لگے تو مکار منافقوں کا ایک گروہ آیا اور محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے بارگاہ اقدس میں یہ درخواست پیش کی کہ یا رسول اﷲ(صلی اﷲ علیہ والہ وسلم)ہم نے بیماروں اور معذوروں کے لئے ایک مسجد بنائی ہے ۔آپ چل کر ایک مرتبہ اس مسجد میں نماز پڑھا دیں تا کہ ہماری یہ مسجد خدا کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس وقت تو میں جہاد کے لئے گھر سے نکل چکا ہوں لہٰذا اس وقت تو مجھے اتنا موقع نہیں ہے۔ منافقین نے کافی اصرار کیا مگر آ پ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی اس مسجد میں قدم نہیں رکھا۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ تبوک سے واپس تشریف لائے تو منافقین کی چالبازیوں اور ان کی مکاریوں، دغابازیوں کے بارے میں ''سورۂ توبہ'' کی بہت سی آیات نازل ہو گئیں اور منافقین کے نفاق اور ان کی اسلام دشمنی کے تمام رموز و اسرار بے نقاب ہو کر نظروں کے سامنے آ گئے۔ اور ان کی اس مسجد کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ
"اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد ضرر (یعنی نقصان) پہنچانے اور کفر کرنے اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے بنائی اور اس مقصد سے کہ جو لوگ پہلے ہی سے خدا اور اس کے رسول سے جنگ کر رہے ہیں ان کیلئے ایک کمین گاہ ہاتھ آ جائے اور وہ ضرورقسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی ہی کا ارادہ کیا ہے ۔اور خدا گواہی دیتا ہے کہ بےشک یہ لوگ جھوٹے ہیں آپ کبھی بھی اس مسجد میں نہ کھڑے ہوں وہ مسجد (مسجد قباء) جسکی بنیاد پہلے ہی دن سے پرہیز گاری پر رکھی ہوئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اسمیں ایسے لوگ ہیں جو پاکی کو پسند کرتے ہیں اور خدا پاکی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔(توبہ )
اس آیت کے نازل ہو جانے کے بعد حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن د خشم و حضرت معن بن عدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو حکم دیا کہ اس مسجد کو منہدم کرکے اس میں آگ لگا دیں۔(2) (زرقانی ج۳ ص۸۰)
انہدام کے بعد
مسجد ضرار کی جگہ خالی پڑی تھی، رسول اللہ نے عاصم ابن عدی کو اس کی اجازت دی کہ وہ اس جگہ میں اپنا گھر بنالیں، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺجس جگہ کے متعلق قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوچکی ہیں میں تو اس منحوس جگہ میں گھر بنانا پسند نہیں کرتا، البتہ ثابت بن اقرم ضرورت مند ہیں ان کے پاس کوئی گھر نہیں ان کو اجازت دیدیجئے کہ وہ یہاں مکان بنا لیں، ان کے مشورہ کے مطابق آپ نے یہ جگہ ثابت بن اقرم کو دے دی مگر ہوا یہ کہ جب سے ثابت اس مکان میں مقیم ہوئے ان کے کوئی بچہ نہیں ہوا یا زندہ نہیں رہا۔ اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ انسان تو کیا اس جگہ میں کوئی مرغی بھی انڈے بچے دینے کے قابل نہ رہی کوئی کبوتر اور جانور بھی اس میں پھلا پھولا نہیں، چنانچہ اس کے بعد سے یہ جگہ آج تک مسجد قبا کے کچھ فاصلہ پر ویران پڑی ہے۔
اب سننے میں آیا ہے کہ حکومتِ سعودیہ نے یہاں کوئی عمارت تعمیر کرکے اس کو مدرسے یا لائبریری میں تبدیل کردیا ہے۔ واللہ اعلم
0 comments:
Post a Comment