خلافتِ فاروقِ اعظم
سکندر اور چنگیز کی فتوحات اس قابل نہیں کہ ان کا موازنہ حضرت عمر کی فتوحات سے کیا جائے لیکن جب ہم قانونِ اسلام اور حضرت عمر کے قوانین کو دیکھتے ہیں اور ایک طرف ان فتوحات کو دیکھتے ہیں تو ایک عاقل انسان کے لئے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ کہاں ایک طرف بغاعت کو فرو کرنے کے لئے سکندر اور چنگیز شہریوں کے قتل کا حکم دیتا ہے تو دوسری جانب حضرت عمر کا فرمان ہے کہ انسان تو درکنار کوئی درخت بھی کاٹا نہیں جائے گا، اس حکم میں بچوں اور بزرگوں سے مکمل تعرض برتا جائے گا۔کہاں سکندر ہے کہ شام پپر حملہ کرتا ہے اور ایک ہزار انسانوں کو قتل کر کے ان کے سر قلعے کے باہر لٹکائے جاتے ہیں اور کہاں عمرِ فاروق ہیں کہ عربسوس کے باشندے تین تین بار بغاوت کرتے ہیں اور ان کو ان کی زمینوں اور مال مویشیوں کی دگنی قیمت ادا کر کے علاقہ چھوڑ جانے کا کہا جاتا ہے، نہ صرف یہ بلکہ راستے کی تمام چوکیوں کے نام احکام بھیجے جاتے ہیں کہ ان کی ہر ممکن اعانت کی جائے۔
یہ مسلمانوں کا اعلیٰ ظرف ہی تھا کہ جب یرموک کا معرکہ پیش آیا اور مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا تو یہودی اور عیسائی بے اختیار بول اٹھے کہ خدا تم کو یہاں واپس لائے۔اس کے علاوہ دوسرے حاکمین کی فتوحات کی طرف دیکھا جائے تو وہ فتوحات ایک آندھی سے مشابہ تھیں کہ آئیں اور نکل گئیں۔ یہاں حضرت عمر کو زیادہ اہم کام انجام دینے تھے۔ ایک طرف تو جنگ ہی تھی پھر اس کے بعد فتح کئے گئے علاقوں میں نئے سرے سے قوانین کا نفاظ تھا جس کا نتیجہ اب یہ ہے کہ تیرہ سو برس گزرنے کے بعد بھی ان علاقوں میں اسلام نافظ ہے۔شہادتِ عمر رضی اللہ کے وقت اسلامی سلطنت کا رقبہ 226030 مربع میل پر پھیلا ہوا تھا۔یہ علاقے شام، مصر، عراق، آذربائجان، آرمینیہ،فارس، کرمان، خراسان اور موجودہ پاکستان میں بلوچستان کے کچھ حصے تک پھیلی ہوئی تھی۔
یہاں بعض مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں ان فتوحات میں اس وقت کے مسلمانوں کے جوش کا ہاتھ تھا جو فتوحات کی اصل وجہ بنا، بعضوں سے یہ فتوحات آج تک ہضم نہیں ہو سکیں، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمان اور حضرت علی وقت میں بھی یہی مسلمان موجود تھے تو کیا فتوحات کا وہ جوش ختم ہو گیا تھا یا مسلمانوں میں وہ استقلال نہیں رہا تھا؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ اس جوش و استقلال کو بہتر طور پر استعمال کرنے والا ایک ہاتھ بھی ضروری ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر کی شکل میں مسلمانوں کو عطا کیا تھا۔کہاں ایک جانب تو وہ تمام امور تھے جو مدینہ میں رہ کر حضرت عمر نے انجام دئیے جن میں پیغام رسانی سے لیکر پولیس اور قاضیوں تک کی تقرری کا مسئلہ تھا اور کہاں وہ تمام ممالک جو فتح ہوئے ان میں اسلامی نظام کا نفاظ اور کہاں افواجِ اسلام کی باگ دوڑ کا کام تھا۔حضرت عمر کی شخصیت ایسی شخصیت تھی کہ اس وقت میں اسلام کو جن کی اشد ضرورت تھی۔
حضرت عمر بلا شبہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ تمام عالم ایک فرد میں سما سکتا تو وہ حضرت عمر ہی ہیں۔کہاں ایک ایسا شخص تھا جس کی جوانی کے ایام اونٹ چرانے میں گزرے اور چالیس برس تک اس بات کا خواب بھی نہ دیکھا تھا کہ کبھی کہیں حکومت کرنی پڑے گی اور کہاں یہ کہ اس ذہانت سے تمام امور انجام دئیے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ یہاں ایک بات کرنا بھی ضروری ہے کہ دنیا کے جتنے بھی نامور حکمران گزرے ہیں ان کی آنکھ ایک ایسے معاشرے میں کھلی جہاں پہلے سے قوانین نافظ تھے، انہوں نے ان قوانین میں صرف ترمیم کی اور آگے بڑھ گئے۔ حضرت عمر کی مکمل زندگی میں کہیں ایسی مثال آپکو نہیں ملے گی، خود ان تمام امور کے بارے میں عرب کا معاشرے سرے سے ہی نا بلد تھا ۔ صوبوں اور اضلاع کی تقسیم سے لیکر تعلیم، فوج، پولیس اور پبلک سروس تک کے تمام ضابطے حضرت عمر کے ذہن کی پیداوار ہیں۔دنیا کی تاریخ اٹھا لیں اور زیادہ نہیں بس ایک حکمران ایسا دکھا دیں کہ جس کے کرتے میں دس دس پیوند لگے ہوں، غریب عورتوں کے گھر میں راشن اپنی کمر پر لاد کر دیتا ہوں، پانی بھر کر لاتا ہو، اونٹوں پر تیل کی مالش کرتا ہو اور مسجد میں خاک کے فرش پر سویا رہتا ہو، ورق پر ورق الٹ کر بھی ایسی مثال نہیں ملتی، ایک ایسا شہنشاہ کے جس کے نام سے ایک عالم لرزہ بر اندام تھا لیکن جس کو دربانوں یا خدام کا مطلب نہیں معلوم تھا۔بڑے بڑے حکمران سج دھج کر نکلتے تھے، ہرمزان جب حضرت عمر سے ملنے آیا تو وہ مسجد میں فرش پر پڑے سو رہے تھے۔حکمران ایسے تھے کہ جب ایک معمولی سفر کو نکلتے تھے جو رکاب میں پروٹوکول کے تیس تیس ہزار فوجی شامل ہوتے تھے، اب ذرا حضرت عمر کا سفرِشام اٹھا کر دیکھیں کہ ایک سواری کا گھوڑا اور ساتھ میں گنتی کے چند فراد لیکن مدینہ سے لیکر شام تک غل پڑا تھا کہ امیر المومینین شام کے لئے روانہ ہیں۔
بلاشبہ یہ دنیا دوبارہ ایسا رجلِ عظیم پیدا نہیں کرے گی اور آنے والا وقت تا قیامت ایک ایسے حکمران کے لئے دعا گو رہے گا
0 comments:
Post a Comment